Urdu Stories Love
Enjoy urdu stories love |
***
عنوان : فریب
مصنفہ : اقصیٰ صدیق
------------------
مولوی بشیر نے ایک ناچنے والی سے دوسرا نکاح کر لیا جس نے بھی سنا کانوں کو ہاتھ لگانے لگا - کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایک ایسا شخص جو سارا دن مسجد میں دوسروں کے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتا رہے وہ خود ایک ناچنے والی سے نکاح کر لے اور پھر سکینہ اور ان کی محبت تو محلے والوں کے لیے مثال تھی - سکینہ سب کو فخر سے بتاتی کہ مولوی صاحب کی محبت اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی کم نہیں ہوئ بلکہ بڑھتی جا رہی ہے تو پھر اچانک دوسری شادی.... - سب کو وجہ جاننے کا تجسس تھا مگر سکینہ کی حالت خراب تھی جب سے مولوی صاحب دوسری بیوی کو گھر لے آئے تھے وہ روئے جا رہی تھی اپنی قسمت کو کونسے جا رہی تھی مگر مولوی صاحب کو کوئ فرق نہیں پڑا تھا - وہ اپنی خوبصورت اور کم عمر بیوی کے ساتھ بڑے خوش نظر آ رہے تھے - وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہنسی مذاق کرتے اور سکینہ دیکھ دیکھ کر جلتی رہتی - وہ دوپٹہ منہ پر ڈالے درخت کی چھاؤں میں لیٹی ہوئ تھی کہ ماریہ کے ساتھ اماں جنتے چلی آئی جسے محلے کی عورتوں نے ٹوہ لینے بھیجا تھا - اماں جنتے کو دیکھ کر سکینہ کا زخم تازہ ہو گیا اور وہ زارو قطار رونے لگی - ماں کو روتا دیکھ کر ماریہ اکتا کر اندر چلی گئ - اماں جنتے جھوٹی ہمدردی جتاتے ہوئے بولی ہائے سکینہ تو نہ رو میرا دل جلتا ہے تیرے ساتھ اتنا برا ہو گیا مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا مگر یہ بتا اس ظالم نے تیرے ساتھ بےوفائ کی کیوں ؟ کیا وہ تیرے ساتھ خوش نہیں تھا ساتھ والی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اس نے حیرانی سے پوچھا تو سکینہ روتے ہوئے بولی اماں میں نے تو ہمیشہ ان کی خدمت کی ہے انہیں خوش رکھنے کی کوشش کی ہے اور وہ بھی کہتے تھے سکینہ میں تجھ سے بہت خوش ہوں تجھے دکھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور دیکھ اماں تین دن سے رو رہی ہوں اور انہیں کوئ فرق ہی نہیں پڑ رہا _ اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ خوشیاں منا رہے ہیں _ وہ دوپٹے کے پلو سے آنکھیں رگڑتے ہوئ بھرائ آواز میں بولی تو اماں جنتے نے اسے خود سے لگا لیا ارے میری بھولی دھی مرد کی زبان کا کوئ بھروسہ نہیں ہوتا ایسے مرد اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کے لیے ایسی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں - سکینہ ان سے الگ ہوتے ہوئے بولی نہیں اماں وہ ایسے نہیں تھے ضرور اس چڑیل نے انہیں اپنی اداؤں سے پھنسا لیا ہو گا - اماں جنتے نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس کی عقل پر ماتم کر رہی ہو اور پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس کے قریب ہو کر رازداری سے بولی ویسے وہ میسنی ہے کہاں میں بھی تو دیکھوں ایسا کونسا حسن کا شاہکار ہے جس کے آگے ہماری سکینہ کی محبت اور خدمت پھیکی پڑ گئ ہے - سکینہ نے نفرت سے پارو اور مولوی بشیر کے کمرے کی طرف دیکھا اور حقارت سے بولی سارا دن اپنے کمرے میں پڑی رہتی ہے ابھی بھی اندر ہو گی - اماں جنتے نے چونک کر پوچھا کیا مطلب وہ کمرے سے نہیں نکلی تو کیا اس کا کھانا تم بناتی ہو ؟ سکینہ لاپرواہی سے بولی ارے اماں مجھ میں کہاں ہمت کہ کھانا بنا سکوں ماریہ سب کا کھانا پکاتی ہے اور شام کو مولوی صاحب خود اس میسنی کے لیے کھانا نکال کر لے جاتے ہیں سکینہ نے دکھ سے کہا تو اماں جنتے نے حیرانی سے پوچھا کیا مولوی کوئ لنگڑی بیاہ لایا ہے - سکینہ منہ بناتے ہوئے بولی ارے نہیں اماں اچھی خاصی تیز طرار اور پھرتیلی چھوکری ہے دوسرے ہی دن میری رسوئ میں گھس کر ان کے لیے ناشتہ بنانے کھڑی ہو گئ میں نے اسی پل اس کو اس کی اوقات یاد دلا دی اس کے ناپاک ہاتھوں سے بنے کھانے تو دور مجھ سے تو اس کا ناپاک وجود اپنی رسوئ میں برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا نہ جانے کون کون سا گناہ کرتی رہی ہے اس نے نفرت سے کہا تو اماں جنتے اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے بولی ارے جھلی جو ہونا تھا ہو گیا وہ بدل تو نہیں سکتا تجھے تو اس سے اپنی خدمت کروانی چاہیے تھی اس سے اتنے کام کروا کہ وہ خود تنگ آ کر یہ گھر چھوڑ جائے ایسے لڑکیاں بہت نازک ہوتی ہیں اگر تم اس سے کام کرواؤ گی اس کا یہاں رہنا تنگ کر دو گی تو دوسرے دن یہاں سے چلی جائے گی ایسی عورتوں کو کونسا مردوں کی کمی ہوتی ہے انہوں نے منہ بناتے ہوئے کہا تو سکینہ پرسوچ انداز میں سر ہلانے لگی اس سے پہلے کہ سکینہ کچھ بولتی مولوی بشیر اندر داخل ہوئے اور اونچی آواز میں سلام کیا - سکینہ نے ناراضی سے منہ دوسری طرف کر لیا - وہ اماں جنتے سے مل کر وہیں سکینہ کے ساتھ چارپائ پر بیٹھ گئے - سکینہ احتجاجاً ان سے دور ہو کر بیٹھ گئ - انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا اور اماں جنتے سے بولے اماں اپنی بیٹی کو سمجھاؤ کہ اس طرح منہ بنا کر گھر کا ماحول خراب نہ کرے پارو بہت اچھی ہے اگر یہ اس کے ساتھ صحیح رہے گی تو وہ بھی اس کو بڑی بہنوں جیسی محبت اور عزت دے گی اور پھر میں اسے کہا ہے میں کبھی اس کی حق تلفی نہیں کروں گا اگر کبھی اسے لگے اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو یہ مجھ سے سوال کر سکتی ہے مگر اس طرح منہ بنا کر میرے لیے مشکلات نہ بڑھائے - اماں جنتے پہلے تو ہکا بکا رہ گئ پھر چالاکی سے بولی ارے بیٹا غلطی تو تجھ سے ہوئ ہے بھلا ایک ناچنے والی اور ایک تم جیسے شریف النفس انسان کا کوئ جوڑ ہے - بیٹا میں تو کہتی اس سے پہلے کہ وہ تجھے کسی اور کے لیے چھوڑ جائے تو اس کو طلاق دے اور وہاں بھیج دے جہاں سے آئ ہے - مولوی صاحب کا رنگ غصے سے سرخ پڑ گیا وہ مھٹیاں بھینچتے ہوئے اٹھ کر بولے پارو ناچنے والی تھی ہے نہیں مجھے اس کے ماضی سے کوئ مطلب نہیں اور آپ سب لوگوں کو بھی نہیں ہونا چاہیے - اب وہ میری بیوی ہے میری عزت ہے یہ ایک حقیقت ہے آپ سب لوگ جتنی جلدی اس حقیقت کو مان لیں آپ سب کے لیے اچھا ہو گا اور کوئ کچھ بھی کر لے میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا یہ بات سب لوگ ذہن میں بیٹھا لیں وہ سکینہ کی طرف دیکھ کر جتاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے - کچھ دیر بعد پارو اماں جنتے سے ملنے چلی آئ اسے دیکھ کر ایک لمحے کے لیے تو وہ پلکیں جھپکنا بھول گئیں - بڑی بڑی بڑی آنکھیں جن میں کاجل لگا تھا , گلابی گال اور بھرے بھرے ہونٹ جو گلابی لپ اسٹک سے رنگے ہوئے تھے سانچے میں ڈھلا جسم اور بے انتہا خوبصورت پاؤں گلابی دوپٹے میں وہ آسمان سے اتری حور لگ رہی تھی - اس نے آکر بہت ادب سے اماں جنتے کے سامنے سر جھکا دیا وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھنے لگیں کہ سامنے سکینہ پر نظر پڑی جو کڑی تیوریوں سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی _ انہوں نے جلدی سے دو انگلیاں اس کے سر پر پھیری اور خود کو مصروف ظاہر کرنے کے لیے سکینہ کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئیں - پارو کچھ پل وہیں کھڑی رہی پھر اندر کمرے میں چلی گئ - اماں جنتے کے پاس بہت ساری خبریں جمع ہو گئ تھیں اس لیے وہ بھی جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئ -
******
ساحر جو مولوی بشیر کے پڑوس میں رہتا تھا ان کا بچپن سے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا سکینہ نے اسے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا اور وہ بھی اس کا ہر کام کر دیتا مشکل وقت میں بیٹے کی طرح اس کا ساتھ دیتا تھا - ماریہ سے بھی بہت پیار کرتا تھا اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ نہیں تھا وہ اسے بہت یاد کرتی تھیں _ وہ ان دنوں کسی کام سے اسلام آباد گیا ہوا تھا واپس آیا تو اسے مولوی بشیر کی دوسری شادی کے بارے میں علم ہوا _ وہ سب کام چھوڑ کر سکینہ کے پاس چلا آیا - سکینہ اسے دیکھ کر دوبارہ سے رونے لگی اور پارو کو کونسنے لگی - پارو کسی کام سے باہر نکلی تو وہ اس کا حسن دیکھ کر حیران رہ گیا اور دل ہی دل میں مولوی بشیر کی قسمت پر رشک کرنے لگا جسے بڑھاپے میں اتنی کم عمر اور حسین بیوی مل گئ تھی - ماریہ اس کے لیے ناشتہ لے آئ اور وہیں بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے لگی سکینہ نے دیکھا وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی بھائ کو اتنے دن بعد مل کر میری بچی کتنی خوش ہو رہی ہے ویسے بھی مشکل میں اپنوں کا ساتھ ساری پریشانی ختم کر دیتا ہے اس نے سوچا اور مسکرا کر دونوں کو باتیں کرتا دیکھنے لگی - ساحر خوش دلی سے ماریہ کے ساتھ باتیں کر رہا تھا مگر وہ اپنے ذہن سے پارو کا خوبصورت سراپا جھٹک نہیں پا رہا تھا -
******
ساحر تقریباً ہر روز ہی سکینہ سے ملنے آ جاتا - شروع شروع میں وہ ماریہ اور سکینہ کے ساتھ ہی باتیں کرتا مگر پھر اس کی پارو کے ساتھ دوستی ہو گئ اب وہ آتا اور سیدھا پارو کے پاس چلا جاتا - سکینہ نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ایسی عورتوں سے بچ کر رہو جو کسی کی نہیں ہوتیں مگر وہ کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا یہاں تک کہ انہوں نے مولوی صاحب سے بھی بات کی مگر ان کی آنکھوں پر بھی اس کی محبت کی پٹی بندھی ہوئ تھی اور شاید انہیں لگ رہا تھا کہ وہ انہیں بھڑکا رہی ہے اس لیے انہوں نے کہا مجھے پارو پر یقین ہے میں جانتا ہوں وہ ایک شریف عورت ہے وہ کبھی کچھ غلط نہیں کرے گی آپ کو شاید کوئ غلط فہمی ہوئ ہو - سکینہ ان کی بات پر طنزاً مسکرا دی مگر بولی کچھ نہیں - اس نے ماریہ کو ساحر اور پارو کے ساتھ واسطہ رکھنے سے منع کر دیا - ماریہ کے امتحان ہو رہے تھے وہ اکثر کتابیں لے کر چھت پر پڑھنے چلی جاتی - ساحر اور ان کے گھروں کی چھت آپس میں ملی ہوئ تھیں اکثر جب کبھی وہ اور ماریہ چھت پر جاتیں تو ساحر بھی دیوار پھلانگ کر ان کے پاس آ بیٹھتا تھا مگر اب وہ جانتی تھیں ان کی فرمانبردار اور شریف بیٹی اسے چھت پر آنے سے منع کر دے گی - انہوں نے ایک دو بار اس کی نگرانی بھی کی مگر وہ ہمیشہ پڑھنے میں مگن ہوتی اس لیے سکینہ مطمئن ہو گئ -
*******
ایک دن اچانک ساحر کو پولیس پکڑ کر لے گئ سب لوگ حیران و پریشان تھے مگر سکینہ کا تو دکھ ہی کم نہیں ہو رہا تھا - اماں جنتے اس کے پاس بھاگی چلی آئ اور حیرانی سے پوچھا ارے سکینہ مولوی صاحب نے تو ساحر کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا نا پھر اسے اندر کیوں کرا دیا - مولوی صاحب نے اسے جیل بھجوایا ہے اس نے حیرانی سے پوچھا تو انہیں پتا چل گیا کہ اسے کچھ نہیں معلوم - وہ بھڑکاتے ہوئے بولیں ہاں میں نے تو یہ بھی سنا ہے ساحر لڑکیوں کا بہت بڑا اسمگلر تھا پہلے انہیں اپنے جھوٹے پیار کے جھانسے میں پھنسا کر انہیں گھر سے بھاگا لے جاتا تھا اور پھر انہیں آگے بیچ دیتا اور مولوی صاحب کو کسی نے اطلاع دی ہے کہ آج رات بھی وہ ہمارے محلے کی کسی لڑکی کو بھگا کر لے جانے والا تھا وہ تو اس لڑکی کی قسمت اچھی کہ بروقت کسی نے اطلاع دے دی ورنہ نہ جانے اس کا کیا حال ہوتا - سکینہ کے چہرے پر خوف پھیل گیا وہ ایک دم گم صم ہو گئیں _ انہیں یہ سوچ کر خوف محسوس ہو رہا تھا کہ اتنا عرصہ وہ ان کے گھر میں آزادانہ گھومتا رہا نہ جانے انہیں اور ماریہ کو کیسی نظروں سے دیکھتا ہو گا - ان کی عدم دلچسپی محسوس کرکے اماں جنتے وہاں سے اٹھ آئ مگر پیچھے ایک سوال چھوڑ گئی کہ آخر وہ لڑکی کون تھی جسے آج رات ساحر بھگا کر لے جانے والا تھا _ وہ گم صم سی صحن میں چکر کاٹنے لگیں وہ سوچ رہی تھیں کہ یقیناً ان کی کوئی نیکی کام آئ ہے جو ساحر جیسا شخص انہیں کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچا پایا ورنہ اس جیسے شخص سے کوئی بعید نہیں کہ وہ ماریہ کے ساتھ کچھ برا کر دیتا یہ تو ماریہ کی خاندانی شرافت اور ان کی نیک تربیت تھی کہ وہ ساحر سے ہمیشہ ان کی موجودگی میں ملتی تھی اور زیادہ فری بھی نہیں ہوتی تھی ورنہ پارو جیسی عورتیں تو دو منٹ میں مردوں سے یارانہ بنا لیتی ہیں انہوں نے نفرت سے سوچا _ اچانک ان کی نظر صحن میں ایک طرف لگے بڑے سے درخت کے پیچھے رکھی چھوٹی سی گٹھڑی پر پڑی اور ان کا دل دھک سے رہ گیا _ انہوں نے کپکپاتے ہاتھوں سے گٹھڑی کھولی اس میں پارو کے پانچ کام والے سوٹ جو وہ نکاح کے اگلے دن مولوی صاحب کے ساتھ جا کر لے آئ تھی ، پارو کی سونے کی چوڑیاں ، ان کے جہیز کا سیٹ اور کچھ نقدی پڑی تھی _ وہ بے یقینی سے سارا سامان دیکھتی رہی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ پارو اس حد تک گر سکتی ہے _ وہ غصے سے بھری سیدھا اس کے کمرے میں چلی آئیں اور گھٹڑی اس کے سامنے پھینک کر اسے تھپڑوں اور لاتوں سے مارتے ہوئے حقارت سے چیخی ارے گندی عورت مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا کہ تم جہاں سے آئ ہو وہاں کی عورتوں میں حیا بالکل بھی نہیں ہوتی مگر تم اس حد تک گر جاؤ گی مجھے یقین نہیں آ رہا تمہیں مولوی صاحب کا ذرا خیال نہیں آیا جنہوں نے سارے زمانے سے لڑ کر تمہارے جیسی عورت کو اپنایا تمہارے پیچھے اپنی بیوی اور بیٹی کو چھوڑ دیا تمہیں اتنا پیار دیا تم انہی کو دھوکہ دینے جا رہی تھی ان کی عزت مٹی میں ملانے جا رہی تھی _ انہوں نے پارو کو زور سے دھکا دیا جس سے وہ فرش پر گر گئی مگر پھر بھی ان کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا پارو کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کر رہی تھی جس سے ان کی ہمت اور بھی بڑھ گئی _ وہ فرش پر گری پارو کو لاتوں سے مارتے ہوئے بولی قصور تمہارا نہیں سارا قصور تو مولوی صاحب کا ہے جنہوں نے تم جیسی گندی عورت سے وفا کی امید لگا لی تھی آئیں آج مولوی صاحب میں ان کو تمہاری اصلیت بتاتی ہوں _ یہ کیا ہو رہا ہے اچانک مولوی صاحب کی گرج دار آواز سنائی دی تو ان کا دل دھک سے رہ گیا مگر پھر وہ غصے سے پلٹی اور طنزیہ بولی آگئے ہیں آپ اپنی چہیتی بیوی کے گناہوں پر پردہ ڈال کر _ مولوی صاحب تیزی سے ادھ موئ پارو کی طرف بڑھے اور اسے سہارہ دے کر اٹھاتے ہوئے غصے سے اونچی میں بولے کیا بکواس کر رہی ہو اور کیا کیا ہے تم نے پارو کے ساتھ ؟ وہ بھی انہی کی طرح غصے سے چیخی یہ آپ کے ساتھ فریب کر رہی تھی آپ کی عزت مٹی میں ملانے جا رہی تھی اسی کی سزا دے رہی تھی _ مولوی صاحب تھکے ہوئے لہجے میں بولے فریبی یہ نہیں فریبی تمہاری بیٹی ہے وہی ہماری عزت داؤ پر لگانے والی تھی وہ تو اچھا ہوا ساحر نے اپنے ناپاک ارادے سے پارو کو آگاہ کر دیا اور اس نے ساری بات مجھے بتا دی ورنہ تم تو اپنی نیکیوں اور اپنی تربیت کے غرور میں بیٹی سے بالکل غافل ہوگئ تھیں تم شاید یہ بھی نہیں جانتی وہ ساحر سے چھت پر ملتی تھی اس کے ساتھ بھاگ کر شادی کے پلان بنائے ہوئے تھے _ اگر میری بات کا یقین نہیں تو اپنی بیٹی سے پوچھ لو انہوں نے دروازے کی اوٹ میں کھڑی ماریہ کی طرف اشارہ کیا اور پھر بنا رکے سکینہ پر نظریں جمائے بولے تمہیں یہ جاننا ہے نا کہ میں اس سے کیسے ملا تو سن لو خدا کے گھر اس کا کلام پڑھ رہا تھا تو یہ روتے ہوئے میرے پاس آئ اور مجھے کہا کہ میں اس سے نکاح کر لوں کیونکہ وہ اپنی سابقہ زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی نیک اور پاکیزہ زندگی گزارنا چاہتی تھی ایک عورت میری وجہ سے نیکی کے راستے پر چل پڑے تو شاید میری آخرت سنور جائے اس لیے اس سے نا چاہتے ہوئے بھی نکاح کر لیا تھا مگر اب سوچتا ہوں شاید ہماری عزت کی حفاظت کے لیے ہی خدا نے اسے ہماری زندگی میں بھیجا تھا _ ابھی بھی وقت ہے اپنی انا کو ختم کرکے اس سے معافی مانگ لو انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا تو اس نے دروازے کی اوٹ سے جھانکتی ماریہ کو دیکھا جس کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر چھائی ندامت مولوی صاحب کی ہر بات کی تصدیق کر رہی تھی _ اس نے روتے ہوئے پارو کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تو اس نے اسے سینے سے لگا لیا _ ماں کو دیکھ کر ماریہ بھی سر جھکائے باپ کے سامنے آ کھڑی ہوئی _ انہوں نے کچھ پل اسے دیکھا مگر اس کے چہرے پر شرمندگی اور آنکھوں میں ندامت کے آنسو دیکھ کر اسے خود سے لگا لیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ غلطیاں انسان سے ہی ہوتی ہیں _ ایک انا کے خاتمے سے ان کا گھر پھر سے خوشیوں کا گہوارہ بن گیا تھا_
------ختم شد-----
Description
To read and enjoy more urdu stories love , cooking recipes, poetry in urdu and mehandi design visit our blog Urdu library.
- Read this : urdu love stories
- Read this : romantic love story
- Read this : Love stories in urdu
- Read this : Urdu romantic love story
- Read this : Urdu love story
- Read this : Urdu stories love
0 تبصرے