Sad emotional urdu love story

 Emotional urdu love story 

introduction

فاتح " ایک " sad emotional love story in urdu language  ہے جس کی مصنفہ اقصیٰ صدیق  اور دلچسپ ہیں  -  اس بلاگ پر آپ ان کے مزید بہت سے زبردست افسانے کہانیاں  , ریسیپیز , مہندی کے ڈیزائین اور شاعری پڑھ سکتے ہیں -

***********    

Emotional Urdu stories love


Sad emotional love stories in urdu.

عنوان :فاتح 


مصنفہ :اقصیٰ صدیق

   -----------

میں کافی شاپ سے نکل رہا تھا کہ اچانک مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے مجھے پکارا ہو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر آدمی دروازے کے پاس رکھی میز کے پاس کھڑا زور زور سے ہاتھ  ہلا رہا تھا میں نے اپنے اردگرد دیکھا کوئ بھی نہیں تھا وہ شخص یقیناً مجھے ہی بلا رہا تھا - مجھے سوچ میں ڈوبے ایک ہی جگہ پر جمے دیکھ کر وہ شخص تیزی سے میرے پاس آیا اور مجھے گلے لگاتے ہوئے بولا یار تو تو مجھے بھول ہی گیا ہے میں تیرے بچپن کا دوست یاور ہوں - میرے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا میں نے اسے بھینچتے ہوئے کہا سوری یار تیس سال بعد دیکھا ہے تجھے پہچان نہیں پایا اور پھر وقت نے تجھے بوڑھا بھی کر دیا ہے -وہ ہنستے ہوئے عادت کے مطابق میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا جوان تو خیر تو بھی نہیں رہا آ چل بیٹھ کر کافی پیتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں میرے پاس بہت کچھ ہے تجھے بتانے کے لیے - تین گھنٹے ہم باتیں کرتے رہے ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا آخر باہر رات کی تاریکی پھیلتی دیکھ کر وہ اٹھتے ہوئے بولا میری بیٹی کی شادی دو ہفتے بعد ہے میں نے معاویہ اور محسن کو بھی بلایا ہے وہ دونوں بھی شادی پر آئیں گے مگر تم نے ایک ہفتہ پہلے بچوں اور بھابھی کے ساتھ میرے گھر آ جانا ہے - میں معذرت کرتے ہوئے بولا سوری یار تیری بھابھی تو امریکہ اپنی بہن کے گھر گئ ہوئ ہے وہ تو نہیں آ پائے گی مگر میں ضرور آؤں گا وہ مسکراتے ہوئے بولا ٹھیک ہے تم نے ضرور آنا ہے - میں نے جاتے جاتے اس سے پوچھا کیا اب بھی پرانے محلے میں رہتے ہو ؟ وہ اداسی سے بولا نہیں یار میرے بیٹوں کو نہ وہ محلہ پسند ہے اور نہ وہ پرانا گھر اس لیے کلیفٹن میں نیا بنگلہ لیا ہے - میں نے ہنستے ہوئے اسے تسلی دی اداس نہ ہو میرا بھی تمہارے جیسا ہی حال ہے تمہاری بھابھی کو بھی اس محلے میں رہنا پسند نہیں ہے - مگر میں روز اس گھر جاتا ہوں وہاں بیٹھنا وقت گزارنا اچھا لگتا ہے بچپن کی یاد تازہ ہو جاتی ہے - وہ مجھ سے گلے ملتے ہوئے بولا معاویہ اور محسن آ جائیں پھر سب مل کر پرانے محلے جائیں گے اور پرانی یادیں تازہ کریں گے اس سے رخصت ہوتے ہوئے میں ایک عجیب سی خوشی محسوس کر رہا تھا

    ****---****

میں جیسے ہی یاور کے گھر داخل ہوا ایک بیس سال کی لڑکی باغ میں بیٹھی پورے انہماک سے ڈائری لکھ رہی تھی - مجھے نہ جانے کیوں اس لڑکی پر کسی پری کا گمان ہو رہا تھا اس کی سنہری رنگت دھوپ کی روشنی میں دمک رہی تھی - میں نے اس کے پاس جا کر اونچی آواز میں سلام کیا اس نے بنا چونکے سنجیدگی سے میری طرف دیکھا میں جو سمجھ رہا تھا کہ وہ ڈر جائے گی اس کے انداز پر عجیب شرمندگی محسوس کرنے لگا - شاید میں نے اپنی عمر کے حساب سے بہت اوچھی حرکت کی تھی - میں نے اپنے تعارف کروانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ وہ سنجیدگی سے بولی انکل بابا گھر پر نہیں ہیں آپ کا روم ریڈی ہے آپ اپنے روم میں جا کر فریش ہو جائیں اس کا انداز اتنا سنجیدہ تھا کہ میں خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا -بعد میں یاور سے معلوم پڑا کہ اسی پری کی شادی ہے مگر وہ اتنی اداس کیوں ہے اس کے معصوم چہرے پر چھائ سختی میرے دل میں بہت سے سوال پیدا کرتی شاید کوئ خوف تھا جسے وہ اس سختی کے پیچھے چھپائے ہوئے تھی - میں نے بہت بار یاور سے پوچھنا چاہا مگر وہ اس ٹاپک پر بات ہی نہیں کرتا تھا - ایک دن بہت عجیب واقعہ ہوا جس نے مجھ پر بہت سے راز آشکار کر دیے - مجھے یاور پر بہت غصہ آ رہا تھا مگر میں  اپنے غصے کو شانت کرنے کے لیے باہر نکل گیا مغرب کے بعد میں یاور کے گھر آیا مجھے دیکھتے ہی اس نے کھڑے ہو کر مجھے گلے لگایا میں اس کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گیا - وہ مسلسل نہ جانے کیا بول رہا تھا مگر میرے ذہن میں بس ایک ہی سوال گونج رہا تھا آخر مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے پوچھ ہی لیا - تم اپنی بیٹی کی شادی یاسر سے کیوں کر رہے ہو ؟ اس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں پاگل ہو گیا ہوں میں نے بے چینی سے دوبارہ پوچھا تو آہستگی سے بولا یاسر میرے بھائ کا بیٹا ہے دیکھا بھلا لڑکا ہے اس لیے مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو - میں طنزیہ ہنستے ہوئے  بولا واہ یار یاسر تمہارا دیکھا بھالا لڑکا ہے سب جانتے ہو اس کے بارے میں پھر بھی بیٹی کی شادی اس ظالم شخص کے ساتھ کر رہے ہو جانتے ہو آج اس نے دو لوگوں کو بنا کسی بات کے اتنا مارا ہے کہ اب وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہیں - یاور گہری سانس بھر کر سکون سے کرسی کی بیک سے ٹیک لگاتے ہوئے اف دلاور خوامخواہ میری جان نکال دی تھی یہ بھی کوئ بات ہے جوانی کا جوش ہے وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا - میں نے ملامتی نظروں سے اس کا پرسکون چہرہ دیکھا اور ایک ایک لفظ چبا کر بولا مجھے پسمینہ کی ڈائری سے علم ہوا ہے کہ وہ لڑکا عورت کے گلے میں رسی ڈال کر اسے کھونٹے سے باندھ کر رکھنے کے قائل ہے غصے کی ایک لہر اس کے چہرے پر دوڑ گئ مگر پھر وہ خود کو قابو کرتے ہوئے بولا یار تمہیں ان عورتوں کا معلوم تو ہے ایک بات کا پتنگڑ بنا لیتی ہیں ان کی من گھڑت باتوں کی طرف توجہ نہ دو - میں نے اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا کیا یہ بھی من گھڑت بات ہے کہ وہ اپنی بہنوں کو مارتا ہے - وہ اکتاہٹٹ سے بولا یار کیا ہو گیا ہے مرد ہے وہ اگر اس کی بہنیں غلط کریں گی تو وہ مارے گا ہی نا ایک مرد میں اتنی مردانگی تو ہونی چاہیے - میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا آج تک تم نے بھابھی کو مارا ہے اس نے نظریں نیچی کرکے نفی میں سر ہلایا میں نے طنزیہ ہنستے ہوئے کہا میں نے بھی کبھی نہیں مارا اس کا مطلب ہم مرد ہی نہیں ہیں ہم میں مردانگی ہی نہیں ہے - وہ اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا میں بےچینی سے کھڑا ہوگیا اور رخ بدل کر آسمان کو تکتے ہوئے بولا یار تجھ جیسے ذہین شخص سے اتنی بےوقوفی والی باتوں کی امید نہیں تھی کیا تم دیکھ نہیں پاتے کہ ایک جج کی بیٹی انصاف کی امید پر باپ کو تک رہی ہے - وہ میرے سامنے آ کر بےبسی سے بولا یار میں جانتا ہوں میں اپنی بیٹی کے ساتھ غلط کر رہا ہوں مگر میں مجبور ہوں میں نے بھائ کو زبان دی تھی اب کیسے مکر جاؤں یار اپنی دی زبان کا کچھ تو بھرم رکھنا پڑے گا نا - میں نے غصے سے کہا ہاں تم زبان کا بھرم رکھ لو چاہے بیٹی کی بلی ہی کیوں نہ دینی پڑی میری مانو تو ایسی زبان کو کاٹ کر بیچ دو اور کچھ عقل خرید لو - یاور پریشانی سے بولا یار تم ہی بتاؤ کیا کروں اگر انکار کر دیا تو سب ناراض ہو جائیں گے اور پھر میری پشمینہ سے شادی کون کرے گا میں نے سختی سے کہا انکار کر دو اور پشمینہ کی فکر نہ کرو اس کا نکاح اسی دن ہو گا اور کسی بہتر شخص سے ہو گا یہ وعدہ ہے میرا تم سے - تھوڑا زور دینے پر یاور مان گیا رات کو سب خاندان کے بڑوں کو جمع کر کے انکار کر دیا یاسر اور اس کی ماں نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا مگر اس کے بابا بھلے مانس شخص تھے جانے سے پہلے پشمینہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اچھے نصیب کی دعا دی - پورے گھر میں موت کا سناٹا پھیلا تھا پشمینہ آج بھی خاموش تھی مگر اس کے چہرے کی سختی غائب تھی - اس کے چہرے پر پھیلا اطمینان مجھے عجیب سی خوشی دے رہا تھا - 

        ****---****

اگلے دن میں نے پورا گھر خود سجایا ہر کوئ مجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا جب نکاح  ہی نہیں ہونا تو سجاوٹ کیسی ؟ یاور بار بار مجھ سے پوچھ رہا تھا تم یہ سب سجاوٹ کیوں کر رہے ہو مگر میں نے اس کا سوال نظرانداز کرتے ہوئے کہا تم بس نکاح خواہ کا انتظام کرو اور بھروسہ رکھو تم سے بہتر ہم سفر ڈھونڈا ہے میں نے پشمینہ کے لیے - وہ خاموشی سے موبائل نکال کر نمبر ملانے لگا - میری سج دھج دیکھ کر ایک مہمان خاتون دوسری سے بولی میں نے سنا ہے سارا انتظام یہ بزرگ کر رہے ہیں کہیں انہی کا ارادہ تو نہیں ہے دوسری شادی کرنے کا - دوسری زور سے قہقہہ لگا کر بولی اب نکاح سے ایک رات پہلے دولہا بدلو گے تو ایسا بزرگ دولہا ہی ملے گا وہ دونوں ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے زور زور سے ہنس رہی تھیں میں بس مسکرا کر رہ گیا نہ جانے کیوں ؟ سب مہمان بھی آ گئے نکاح خواہ بھی آ گیا یہاں تک کہ دلہن بھی آ گئ مگر دلہے کا کوئ پتا نہیں تھا سب میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں اپنے مسکراہٹٹ کے پیچھے ڈر چھپائے الفاظ ترتیب دے رہا تھا نہ جانے میری بات سن کر سب کیسے ری ایکٹ کریں کہیں میرا دوست مجھے کمینہ نقب زن دھوکے باز تو نہیں سمجھے گا میں آنکھیں بند کرکے اسے سچ بتانے ہی والا تھا کہ باہر سے ڈھول کی آواز آنے لگی میرا رکا سانس بہال ہوا معاویہ اور محسن کے درمیان دلہا بنا رامس چلا آ رہا تھا - یاور  بچپن کے دوستوں محسن اور معاویہ سے مل کر بہت خوش ہوا اسے رامس بہت پسند آیا - شہزادوں سی آن بان رکھنے والا میرا فرمانبردار بیٹا پوری محفل پر چھایا ہوا تھا سب لوگ پشمینہ کی قسمت پر حیران تھے اور مجھے رامس کی قسمت پر رشک آ رہا تھا 

   ****---****

مہمانوں کے جانے کے بعد ہم چاروں دوست پرانے گھر چلے آئے ہم چاروں بچپن کی باتیں یاد کرکے ہنس رہے تھے کہ اچانک یاور کھوئے کھوئے انداز میں بولا یار تم لوگوں کو یاد ہے ہم ہمیشہ پڑھائ میں مقابلہ کرتے تھے ہم تینوں ہی دلاور سے جیت جاتے تھے اور کچھ دن پہلے جب مجھے علم ہوا کہ دلاور سرکاری ٹیچر ہے تو فخر ہو رہا تھا کہ عہدے میں بھی ہم تینوں اس سے آگے ہیں یہ ذہانت کے باوجود وہی سرکاری  ٹیچر ہے مگر آج احساس ہوا ہے  یہ تو ہم سے بہت آگے ہے ہمارا اور اس کا تو کوئ  مقابلہ ہی نہیں اس نے اپنے نرم دل اور حساس طبیعت کے باعث ہم سب پر بازی  مار لی ہے اس نے اپنی محبت سے اپنے میرے اور تم دونوں کے گھر والوں کو اپنا گرویدہ کر لیا ہے اور اصل جیت ہی یہی ہے ہمارے عہدے تو بہت پیچھے چلے گئے ہیں آج تو یہی معمولی ٹیچر ہر دل پر چھایا ہوا ہے اصل فاتح تو یہی ہے مجھے گلے لگائے وہ بھیگی آواز میں بار بار یہی الفاظ دہرا رہا تھا اور ان دونوں  نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے اٹھ کر  کالج کے دنوں کی یاد  تازہ کرتے ہوئے ہم دونوں کو بازوں کے گھیرے میں لے لیا - ان تینوں کی محبت کے حصار عجیب جکڑا میں عجیب تمانیت محسوس کر رہا تھا برسوں بعد ہی صحیح میں فاتح تو بنا 

    ختم شد

    ***********

Description 

 آپ مزید اس طرح کی  short sad emotional love story پڑھنا چاہتے ہیں تو ہمارے بلاگ کا وزٹ کریں  - آپ کو بہت سی short urdu love story , sad urdu story and Poetry in urdu  کی پوسٹ مل جائیں گی جو یقیناً آپ کو پسند آئے گی - اور بہت شاندار کوکنگ ریسیپیز بھی  اس بلاگ میں مل جائیں گی -

شکریہ

********

Description 

اگر آپ شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو ان پوسٹ کا وزٹ کریں  

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے