Sad Urdu Afsana
introduction
بیوقوف عورت ایک Urdu sad emotional Susana ہے جس کی مصنفہ اقصیٰ صدیق ہیں - یقیناً آپ کو یہ افسانہ پسند آئے گا اور اگر آپ مزید اس طرح کی اردو کہانیاں , شاعری اور افسانے پڑھنا چاہتے ہیں تو اس بلاگ پر مختلف پوسٹ میں آپ کو مزید اس طرح کے زبردست افسانے اور شاعری پڑھنے کو مل جائے گی - اس کے علاوہ کوکنگ ریسیپیز اور مہندی کے ڈیزائین مل جائے گا -
***********
Urdu story |
عنوان : بےوقوف عورت
مصنفہ : اقصیٰ صدیق
------------------
سلطانہ فیکٹری سے آتے ہی چارپائ پر گر گئ رانو بھاگ کر پانی لے آئ جو وہ ایک ہی گھونٹ میں پی گئ پھر اپنی میلی چادر کے نیچے سے دو چھوٹے چھوٹے آم احتیاط سے نکال کر رانو کو پکڑائے یہ لو آم اور ٹھنڈے پانی میں رکھ دو اور ہاں گھر میں پتی تو پڑی ہے رانو جو للچائ نظروں سے آموں کو دیکھ رہی تھی منہ بنا کر بولی ہاں اماں بس دو کپ بن جائیں گے مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو - سلطانہ نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اسے اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا اور ڈپٹتے ہوئے بولی یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے جا جاکر نہا لے اور نئے والا سوٹ پہن لے وہ لوگ بس پہنچنے والے ہوں گے - رانو جو اب ان سب کی عادی ہو گئ تھی بنا کچھ پوچھے کچن میں چلی آئ ٹھنڈے پانی میں آموں کو رکھا اور پھر حسرت سے انہیں دیکھتی رہی کیونکہ وہ جان گئ تھی یہ آم اس کے لیے نہیں بلکہ مہمانوں کے لیے ہیں - اب تو ایسے مہمانوں کا سن کر عجیب سی اداسی چھا جاتی تھی آج ایک بار پھر میری نمائش ہوگی ایک بار پھر مجھے دھتکار کر بے عزت کیا جائے گا آخر ماں کو سمجھ کیوں نہیں آتا شادی کی خوشی مجھ جیسی غریب لڑکی کے نصیب میں نہیں ہے کیوں وہ مہمانوں کو بار بار بلا کر بےعزت کرواتی ہیں - نہیں مگر بےعزتی کیسی خود اپنی ہی نفی کرتے ہوئے اس نے سوچا ماں کہتی ہے بےعزتی تو ان کی ہوتی ہے جن کی کوئ عزت ہوتی ہے پر ہم جیسے غریب لوگوں کی عزت نہیں تو بےعزتی کا ڈر کیسا ایک تلخ مسکراہٹٹ اس کے چہرے پر پھیل گئ - رانو کہاں ہے جلدی تیار ہو وہ لوگ بس پہنچنے والے ہیں سلطانہ کی پاٹ دار آواز اسے سوچوں سے باہر گھسیٹ لائ - اپنے بہتے آنسوؤں کو بےدردی سے صاف کرتے ہوئے اس نے ایک حسرت بھری نظر پانی میں ڈوبے آموں پر ڈالی اور باہر نکل گئ پھر وہی ہوا جس کا ڈر ان دونوں کو ہی تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے چھپائے ہوئے تھیں - لڑکے کی ماں اور بہن ان کی غربت اور رانو کی دبتی رنگت کا مذاق اڑا کر چلی گئیں - رانو کو کچھ برا نہیں لگا کیونکہ یہ سب روٹین کا تھا مگر ان عورتوں نے جس حقارت بھری نظر سے آموں کو دیکھا تھا وہ رانو کے ذہن میں جم گئیں ان کے جانے کے بعد سلطانہ منہ سر لپیٹ کر سو گئ جب کہ وہ آموں کی پلیٹ کو خالی خالی نظروں سے تکتی رہی وہی آم جو اس کے لیے اتنے اہم تھے کہ ان کے لیے سارا سال ایک ایک پیسہ جمع کرتی کہ سیزن میں آم منگوا کر کھاؤں گی مگر وہ پیسے بھی کسی نہ کسی ضرورت میں خرچ ہو جاتے مگر اسے آم نصیب نہ ہوتے سیزن میں آم کھانا اس کا سب سے بڑا خواب تھا اور ان عورتوں نے پلیٹ کی طرف دیکھا تک نہیں تھا کسی کا خواب کسی دوسرے کے لیے اتنا حقیر بھی ہو سکتا ہے اسے یقین نہیں آ رہا تھا - سلطانہ نے چادر سے منہ نکال کر اس کی طرف دیکھا وہ خالی خالی نظروں سے آموں کی پلیٹ کو تکے جا رہی تھی اس کی اتری شکل دیکھ کر سلطانہ کے دل کو دھکا سا لگا وہ حلق میں پھنسا آنسوؤں کا گولہ نیچے اتارتے ہوئے بھرائ آواز میں محبت سے بولی رانو میری جان ایسے کیوں بیٹھی ہے کھا لے نا آم اتنے دنوں سے آم لانے کا کہہ رہی تھی دیکھ خدا نے تیری خواہش پوری کر دی ہے اب رزق کو انتظار نہ کرا کھا لے جن کے لیے لائ تھی ان بدنصیبوں نے تو کھایا ہی نہیں بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئ تو اس نے اپنے آنسو چھپانے کے لیے دوبارہ چادر سر پر تان لی رانو کچھ لمحے چادر کو خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے پلیٹ باہر گلی میں الٹ دی - وہ سوچ رہی تھی اماں ہم بھی تو بدنصیب ہیں جنہیں ایک چھوٹی خواہش کے بدلے اتنا ذلیل ہونا پڑتا ہے کہ پچھتاوا ہوتا ہے کہ ہماری خواہش پوری ہی کیوں ہوئ دروازے میں بیٹھ کر اپنی سسکیاں روکتے ہوئے وہ خود کو مار رہی تھی اور خود کو دل میں کوس رہی تھی کہ اپنی اوقات سے بڑھ کر خواہش کرنے کی جرات کیوں کی ہے اور کھڑکی سے جھانکتی سلطانہ اپنی بیٹی کی حالت پر خود کو بمشکل روکے سسک رہی تھی -
♥ ♥ ♥
خالہ شبینہ اور اماں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھی سارا دن سرگوشیوں میں باتیں کرتی رہیں رانو نے بہت کوشش کی کہ وہ بھی ان کی باتیں سن لے مگر ان کی آواز اتنی کم تھی کہ وہ چاہ کر بھی کچھ نہ سن سکی مغرب کے بعد خالہ اپنے گھر گئ تو وہ تجسس کے مارے سلطانہ کے پاس آ بیٹھی اماں خالہ کیا کہہ رہی تھی اس نے پرجوش انداز میں پوچھا مگر سلطانہ نے ٹالتے ہوئے کہا کچھ خاص بات نہیں ہے تم جا کر نماز پڑھو وقت تنگ ہو رہا ہے -
♥ ♥ ♥
اگلے دن سلطانہ فیکٹری سے گھر آئ تو رانو معمول کے مطابق اس کو پانی دے کر اس کے لیے کھانا نکالنے لگی تو وہ اس کے پیچھے ہی آ گئ سن رانو میں آج کھانا نہیں کھا رہی تو جا کر نیا جوڑا پہن کر آ ہمیں کہیں جانا ہے - رانو نے حیرت سے ماں کو دیکھا سلطانہ اور اسے کہیں لے کر جائے یہ ہو ہی نہیں سکتا سلطانہ لڑکیوں کے گھومنے پھرنے کے سخت خلاف تھی تو آج کایا کیسے اور کیوں پلٹی وہ سمجھنے سے قاصر تھی برحال جو بھی ہے اس چار دیواری سے تو کچھ لمحوں کے لیے جان چھوٹے گی وہ کندھے اچکا کر اندر کی طرف بڑھی - ہاں سن رانو وہ لال والی لپ اسٹک بھی لگا لینا سلطانہ نے پیچھے سے آواز لگائ رانو نے پلٹ کر حیرت سے ماں کو دیکھا تو وہ نظریں چرا گئ رانو سوچنے لگی آج اماں کو ہو کیا گیا ہے اتنا عجیب رویہ کیوں ہے اماں کا اور میری طرف دیکھ کیوں نہیں رہی نظریں کیوں چرا رہی ہے مجھے کہاں لے کر جا رہی ہے - اماں سلطانہ نے اسے سوچوں میں گم کھڑے دیکھا تو ڈپٹتے ہوئے بولی جلدی تیار ہو جا کر پھر نکلنا بھی ہے ہم نے - رانو الجھی الجھی سی تیار ہونے چل دی رانو نقاب کرنے لگی تو سلطانہ نظریں چراتے ہوئے بولی رہنے دو دوپٹے کے ساتھ آ جاؤ اور آگے بڑھ گئ رانو نے ناسمجھی سے ماں کو دیکھا اور پھر کندھے اچکا کر اس کے پیچھے چل دی دو گھنٹے سے رانو اور سلطانہ بازار میں پھر رہے تھے پتا نہیں سلطانہ کو کچھ لینا بھی تھا یا بس وہ گھومنے آئ تھی - ہر دکاندار کے سامنے رانو کی وہ وہ خوبیاں بیان کرتی جو رانو کو بھی نہیں معلوم تھیں - شروع میں مردوں کی ہوس زدہ نظریں اور ماں کا غیر مردوں کے سامنے اس کی ذات کو ڈسکس کرنا بہت عجیب لگ رہا تھا اور پھر ماں کا انداز بھی ایسا تھا جیسے اس کے دل میں کوئ چور ہو اسے بہت الجھن ہو رہی تھی تنگ آ کر اس نے ادھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا مگر وہاں تو تقریباً لڑکیاں گلے میں رس کی مانند دوپٹے ڈالے فل بنی سنوری ایسے آئ ہوئ تھیں جیسے وہ شاپنگ کرنے نہیں بلکہ اپنی نمائش کروانے آئ ہوں - سب لڑکیاں بھی تو ایسے ہی گھوم رہی ہیں اگر میں نے نقاب نہیں کیا تو کیا ہو گیا کم از کم میں نے دوپٹہ تو پہنا ہے شرمندگی اورحیا کا جو تھوڑا بہت احساس تھا وہ بھی اس سوچ کے بوجھ تلے دب کر ختم ہو گیا - رات کو جب وہ بازار کی ایک ایک دکان چھان کر مغرب کے بعد گھر واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں بیس روپے کی دال روٹی تھی جو انہوں نے کھائ اور وہیں پڑ کر سو گئیں - آج انہوں نے نماز نہیں پڑھی یا شاید خدا نے ہی انہیں اپنے روبرو کھڑا ہونے کی توفیق نہیں دی تھی خدا کو ناراض کر کے وہ کتنی پر سکون سو رہی تھیں مگر یہ سکون وقتی تھا وہ نہیں جانتی تھیں انہوں نے خدا کا دامن چھوڑ کر کتنے خسارے کا سودا کیا ہے اس کے بعد سلطانہ اکثر فیکٹری سے جلدی آ جاتی اور دونوں باہر نکل جاتیں پہلے پہل رانو کا دوپٹہ سرک کر گلے میں آیا پھر بازوؤں اور اس کے بعد سرے سے غائب ہو گیا - اب لپ اسٹک کچھ اور گہری ہو گئ اب اس کی آنکھیں اور گال بھی لپ اسٹک سے سرخ ہو گئے اماں حوا کی ایک اور بیٹی بےحیائ کے دلدل میں پھنس کر جہنم کے راستے چل پڑی تھی - شروع شروع میں جب مرد مڑ مڑ کر دیکھتے تو وہ ان کی آنکھوں کی میں ہوس دیکھ کر وہ حیا سے سمٹ جاتی مگر پھر دوپٹے کی طرح حیا بھی ختم ہو گئ آہستہ آہستہ مردوں کی آنکھوں میں ہوس نہیں ستائش نظر آنے لگی اب حیا نہیں فخر محسوس ہوتا تھا اب وہ وہ دبی ہوئ رانو نہیں رہی تھی جسے ہر کوئ ریجیکٹ کر دیتا اب تو وہ رانو تھی جس پر سے لڑکوں کی نظر نہیں ہٹتی تھی - اب تو اس سے یہ فخر بھی چھن گیا تھا کہ اس کا کوئ بوائے فرینڈ نہیں ہے کیونکہ اب بہت سے لڑکے اس کے دوست تھے - انہی میں سے ایک نے اسے موبائل فون بھی گفٹ کیا اب وہ سارا دن موبائل پر گزارتی - سلطانہ کو روز روز دیر سے آنے کی وجہ سے فیکٹری سے نکال دیا گیا تھا مگر اب تو انہیں کوئ پریشانی نہیں تھی تقریباً ہر دکاندار ہی ان پر مہربان ہو گیا تھا جب سے رانو اس کے ساتھ جانے لگی تھی تب سے ہر دکاندار کو اس کی تنہائ غریبی اور بڑھاپا بہت شدت سے محسوس ہونے لگا تھا وہ نہ صرف سودا مفت دیتے بلکہ سامان بھی گھر تک چھوڑ جاتے - سلطانہ سب کچھ دیکھ کر بھی انجان بن جاتی کیونکہ دنیاوی فائدہ تو اسی میں تھا اور نادان انسان عارضی دنیا کے پیچھے موت کی اٹل حقیقت کو بھول جاتا ہے -
♥ ♥ ♥
سلطانہ نے رانو کو ہر طرح سے چھوٹ دی تھی مگر کبھی کسی مرد کو گھر آنے کی اجازت نہیں دی تھی آخر محلے میں اپنا مقام بھی تو بچانا تھا - عمر کے ساتھ رانو کے تعلقات کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئے تھے سلطانہ چاہتی تھی کسی طرح رانو عمر کو پھنسا کر شادی کر لے کیونکہ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھی کہ اس کی بیٹی جیسی لڑکیوں کے ساتھ یہ عزت کے ٹھیکے دار رنگ رلیاں تو مناتے ہیں مگر گھر نہیں بساتے - اگرچہ عمر پہلے سے شادی شدہ اور چھے بچوں کا باپ تھا اس کے علاوہ اس کی شہرت بھی بہت بری تھی مگر اس کی بیٹی اپنے گھر کی ہو جائے وہ اسی میں خوش تھی - ٹی بی کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی تھی ایک دن اس نے رانو کو اپنے پاس بلا کر کہا بیٹا میں جانتی ہوں عمر اور تو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو اب میری زندگی کا بھی بھروسہ نہیں ہے یہ موئ ٹی بی تو نہ جانے کب زندگی کی ڈور کھینچ لے جائے تم عمر کو کہو وہ طریقے سے تمھارا رشتہ لے آئے اور تمھیں بیاہ لے جائے - اس کی بات سن کر رانو قل قل کرکے ہنسنے لگی - سلطانہ نے حیرت سے اسے دیکھا ارے باؤلی ہوئ ہے جو ہنس رہی ہے اس میں ہنسنے والی کونسی بات ہے رانو زبردستی اپنی ہنسی روکتے ہوئے بولی اماں ہمارے نکاح کو ایک ہفتہ ہوگیا ہے اور تو رشتہ لانے کی بات کر رہی ہے - سلطانہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور اس کی کمر میں زور سے تھپڑ مارتے ہوئے بولی ارے پاگل ہو گئ ہے پتا بھی ہے کیا بول رہی ہے نکاح کر لیا اور بتایا بھی نہیں ارے کم از کم ماں کو تو بتا دیتی رانو کمر سہلاتے ہوئے تحقیر سے بولی اماں تجھے بتا بھی دیتی تو تونے کونسا میری شادی میں بینڈ باجے والوں کو بلا لینا تھا اور تو تو خوش ہو بغیر جہیز کے میں تیری جان چھوڑ دوں گی - سلطانہ کو اس کا انداز برا تو لگا مگر وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی بینڈ باجے نہ منگواتی بہت زیادہ جہیز نہ دیتی مگر کچھ نہ کچھ تو کر ہی لیتی آخر اکلوتی بیٹی کی شادی کے کچھ تو ارمان تھے میرے دل میں - رانو نے نخوت سے ہنکارہ بھرا ہونہہ اکلوتی بیٹی کی شادی کے ارمان جس بیٹی کی نمائش کرکے روٹی کھاتی ہو اس کی شادی پر ارمان نکالنے کے لیے تو پھر اس کی بولی لگانی پڑ جاتی - حقیقت کا ایک زور دار تھپڑ پڑا تھا اس کے منہ پر جس نے اس کے سوچنے سمجھنے کی حس ہی چھین لی تھی وہ کئ گھنٹے سن سی وہیں بیٹھی رہی جب کہ رانو عمر سے ملنے چلی گئ - یہی ایک جملہ کسی آسیب کی طرح اس کو سارا وقت ڈراتا رہا - رانو رات ایک بجے واپس آئ تو وہ ایک کونے میں دونوں ٹانگوں میں سر دیے رو رہی تھی رانو نے اکتاہٹ سے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی اماں اب کیا نیا ڈرامہ بنا رکھا ہے اگر کچھ چاہیے تو بتا دو یہ رونے کا ناٹک کیوں کر رہی ہو - سلطانہ کے دل کو دھکا سا لگا اسے وہ وقت یاد آ رہا تھا جب رانو اس کے لیے پانی لے آتی کھانے کھلاتی اس کا ہر طرح سے خیال رکھتی کاش وہ اسے حرام نہ کھلاتی تو اس کا دل اتنا سخت نہ ہو گیا ہوتا کاش وہ خدا کا در نہ چھوڑتی تو اتنی ذلیل نہ ہو رہی ہوتی - اسے اپنی پریشانیاں تو نظر آئیں مگر خدا نے اس حلال کمائ جو عزت اور برکت رکھی تھی وہ اس جیسی ناشکری عورت کو نظر نہ آئیں اس نے خدا کا در چھوڑ کر لوگوں سے امیدیں وابستہ کر لیں تھیں اور اب وہ انہیں لوگوں سے ذلیل ہو رہی تھی - اسے سوچوں میں گم دیکھ کر رانو اکتا کر بولی اماں اب بول بھی دو کیا مسئلہ ہے کیوں رو رہی تھی ؟ وہ اس کا سوال ٹالتے ہوئے بولی بیٹا آج اتنی دیر کیوں کر دی واپس آنے میں کہاں تھی تم ؟ رانو طنزیہ ہنستے ہوئے بولی آج جلدی آ گئ ہوں پہلے تو اس سے بھی لیٹ آتی تھی پر آپ کو نہیں پتا ہو گا آپ تو سو رہی ہوتی تھیں - سکینہ نے کچھ پل اس کی طرف دیکھا اور پھر گھٹنوں پر زور دے کر اٹھتے ہوئے بھیگی آواز میں بولی سو جاؤ بہت وقت ہو گیا ہے - رانو پہلے ہی بہت تھکی ہوئ تھی بستر پر گرتے ہی سو گئ اور سکینہ کا تکیہ ساری رات آنسوؤں سے بھیگتا رہا -
♥ ♥ ♥
اگلے تین دن وہ بستر پر پڑی رہی رانو کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اس کی تیماداری کرتی وہ صبح صحن کا جھاڑو لگا کر اور کھانا بنا کر رکھ دیتی اور خود باہر چلی گئ شاید عمر کے پاس جاتی تھی - سکینہ نے اب سے کچھ بھی پوچھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ فوراً حقیقت کا خوفناک آئینہ ان کے سامنے کر دیتی اور ان جیسی بزدل عورت کے پاس اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ حقیقت کے آئینے میں اپنا مکروہ چہرہ دیکھ پاتی - کچھ بےاحتیاطی اور کچھ پریشانی سے اس پر فالج کا اٹیک ہوا اور وہ بالکل ہی بستر کی ہو گئ اس کا نچلا دھڑ بالکل مفلوج ہو گیا تھا - رانو نے اسے سرکاری ہسپتال میں ایڈمٹ کروا دیا اور خود عمر کے ساتھ رہنے لگی - شروع شروع میں رانو بہت روتی اکثر اس کے چہرے پر چوٹ کے نشان ہوتے سلطانہ بےبس سی بیڈ پر پڑی اسے تڑپ تڑپ کر روتے دیکھتی رہتی اس کے سامنے سلطانہ خود کو سنبھالے رکھتی مگر اس کے جانے کے بعد وہ سر پٹخ پٹخ کر اتنا روتی کہ پورا سٹاف جمع ہو جاتا - کچھ عرصے بعد رانو کے رونے میں کمی آ گئ اور کپڑے بھی مہنگے مہنگے پہننے لگی تھی ہر وقت میک اپ میں بنی سنوری رانو کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ وہ رک کر دو گھڑی ماں کا حال پوچھ لیتی اس نے دنیا دکھاوے کے لیے ماں کو پرائیوٹ ہسپتال میں ایڈمٹ کروایا اور ایک نرس کا انتظام بھی کر دیا جو چوبیس گھنٹے سکینہ کے ساتھ رہتی تھی - رانو پندرہ دن بعد آتی پیسے دیتی اور ماں کو دیکھ کر چلی جاتی ایک دن سکینہ نے اس سے پوچھ ہی لیا تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں - ایک زہریلی مسکراہٹٹ اس کے چہرے پر پھیل گئ اردگرد دیکھ کر تھوڑا جھکتے ہوئے بولی آپ میرے جسم کی نمائش لگا کر کھاتی تھیں مگر آپ کا داماد آپ سے بھی اڈوانس ہے پھر تھوڑا ناک چڑھا کر بولی نئ نسل کا ہے نا وہ بیچ کر کھاتا ہے - رانو کہہ کر چلی گئ مگر وہ نہیں جانتی تھی وہ صرف ایک جملہ نہیں تھا بلکہ خنجر تھا جو سلطانہ کے دل پر پڑا اور اس کی جان لے گیا - رانو لابی میں ہی پہنچی تھی کہ سلطانہ کے کمرے سے شور آنے لگا کسی انہونی کے احساس سے اس کا دل سمٹ گیا وہ دعا مانگنا چاہتی تھی مگر کچھ بھی اس کے لبوں پر نہیں آ رہا تھا آخر وہ وہیں بیٹھ گئ - ایک نرس اس کے پاس آئ اور اسے سلطانہ کے مرنے کی اطلاع دی اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگتے چلے گئے جنہیں بےدردی سے صاف کرکے اس نے عمر کو کال کرکے اطلاع دی تدفین کے سارے انتظامات عمر نے سنبھالے - تین دن تک اس نے ایک اچھے داماد اور ایک ہمدرد شوہر کی اتنی اچھی اداکاری کی کہ تقریباً ہر عورت نے اس کو ملتے ہوئے کہا تم بہت خوش نصیب ہو جو خدا نے تمھیں اتنا اچھا شوہر دیا ہے خدا ہر بچی کو عمر جیسا ہم سفر دے اور وہ دہل کر سوچتی خدا نہ کرے - تیسرے دن سب مہمانوں کے جانے کے بعد ماں کی یاد بہت شدت سے آ رہی تھی وہ ماں کے کپڑوں کو خود سے لگائے رو رہی تھی ماں کی خوشبو اس کی یادیں کسی پل چین نہیں دے رہی تھیں - عمر اندر آیا اور حقارت سے اسے دیکھتے ہوئے بولا یہ ناٹک بند کرو اور سب سامان سمیٹ لو اب ہم نے یہاں واپس نہیں آنا میں نے یہ گھر بیچ دیا ہے - رانو نے چونک کر اسے دیکھا وہ اس سے لڑنا چاہتی تھی مگر وہ بےبس مجبور تھی یا شاید ڈرپوک تھی وہ اس درندے سے نہیں لڑ سکتی تھی اس لیے خاموشی سے اٹھ کر سامان سمیٹنے لگی -
♥ ♥ ♥
ماں کے مرنے کے بعد عمر اور زیادہ ظالم ہو گیا وہ اس کی کمائ سے نہ صرف اپنے خاندانی بیوی بچوں کو عیش کرواتا بلکہ اپنے ہی گھر میں اس نے اسے ملازمہ کے طور پر رکھا ہوا تھا - دن بھر وہ ظالم لوگوں کا ظلم سہنے کے بعد رات بھر خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی رہتی - آخر قدرت کو اس پر رحم آ گیا اور ایک دن عمر اس کی بیوی اور بیٹا کار ایکسیڈنٹ میں مر گئے - ایک وریشہ جو ابھی دو سال کی تھی بچ گئ رانو نے وریشہ کو اپنی بیٹی بنا لیا وہ سب کچھ بیچ کر وریشہ کو لے کر دوسرے شہر چلی گئ جہاں کوئ اس کے جاننے والا نہیں تھا اس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر بدل لیا خدا نے اسے اس ذلت بھری زندگی سے نکالا تھا اس لیے اس نے سوچ لیا وہ ایسی ہی زندگی گزارے گی جیسا خدا نے حکم دیا ہے - پردے میں لپٹی رانو کو کوئ جاننے والا دیکھ بھی لیتا تو پہچان نہ پاتا - اس نے تقریبات میں جانا لوگوں سے ملنا بالکل چھوڑ دیا بس وہ اپنے کام اور بوتیک کے سٹاف کے ساتھ خوش رہتی تھی -
♥ ♥ ♥
پانچ سال بعد:
وریشہ کے سکول میں فنکشن تھا وہ زبردستی اسے اپنے ساتھ لے گئ پانچ سال بعد وہ کسی تقریب میں آئ تھی بہت کچھ بدل گیا تھا دوپٹے سے بےنیاز لڑکیاں سٹیج پر ڈانس کر رہی تھیں اور ان کے استاد فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ان کے لیے تالیاں بجا رہے تھے وہ یہ سب دیکھ کر حیران اور دکھی ہو رہی تھی سب عزت دار امیر گھروں کی بچیاں تھیں پھر بھی دوپٹے کے بغیر اتنے چست لباس میں اپنی نمائش کیوں کر رہی تھیں دوپٹہ اتارنا کسی عزت دار عورت کے لیے کتنا مشکل اور دکھ کا سبب ہے وہ جانتی تھی جب ماں نے اسے نقاب اتارنے کا کہا تھا تب اس کے لیے زندگی کا سب سے مشکل اور تکلیف دہ لمحہ تھا اپنی ماں کی مجبوری دیکھ کر اس نے خود کو اس کام کے لیے راضی کیا تھا مگر اس پورے وقت وہ دل ہی دل میں روتی رہی تھی اپنی حیا کو مار کر غیر مردوں کے آگے ناچنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا مگر ان امیر زادیوں کو کیا مجبوری ہے جو یہ بےحیائ کی ہر حد پار کیے سٹیج پر ناچ رہی ہیں - ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس کی نظر اپنے سامنے بیٹھی ماں بیٹی پر پڑی ماں اپنی بیٹی کا دوپٹہ کھینچ کر اتارتی مگر وہ بچی کچھ لمحوں بعد پھر سے اوڑھ لیتی یقیناً اس میں ابھی حیا باقی تھی وہ عورت غصے سے دبی آواز میں بولی امامہ تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے اپنی بہن کو دیکھو کتنا کانفیڈنس ہے اس میں کتنا خوبصورت ڈانس کر رہی ہے اور ایک تم ہو جسے دوپٹہ سنبھالنے سے ہی فرصت نہیں ہے تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے تمہاری شخصیت زیرو ہو گئ ہے نہ جانے کب عقل آئے گی تمہیں اس عورت کی باتیں سن کر رانو چپ نہ رہ سکی اور پیار سے اس بچی کو دیکھتے ہوئے بولی دوپٹے میں اتنی پیاری تو لگ رہی ہے آپ کی بیٹی پھر کیوں اتار رہی ہیں اس کا دوپٹہ - ماں غصے سے بھری بیٹھی تھی اکتائے ہوئے انداز میں بولی مجھے تو سمجھ نہیں آتا میں اس کا کیا کروں عجیب دقیانوسی سوچ ہے اپنے باپ کی طرح ہر جگہ مجھے اس کی وجہ سے شرمندگی ہوتی ہے نہ ہی کانفیڈنس ہے اور نہ ہی پہننے اوڑھنے کا سلیقہ بس ملانی بننے کا شوق ہے رانو مسکراتے ہوئے بولی کانفیڈنس تو ہے آپ کی بیٹی میں اس لیے تو جو اسے صحیح لگ رہا ہے وہ وہی کر رہی ہے ہاں مگر اس میں ابھی حیا باقی ہے اس لیے وہ غیر مردوں کی ہوس زدہ نظریں خود پر برداشت نہیں کر پا رہی - اتنی کھلی بےعزتی پر اس عورت کا رنگ فق ہو گیا - وہ بچی ماں کی حالت دیکھ کر بمشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے بولی یہی بات تو میں ماما کو کہتی ہوں کانفیڈنس اور بےغیرتی میں فرق ہوتا ہے ماڈرن ازم کے نام پر چند اسلام کے دشمنوں نے ہم عورتوں کو اس قدر پاگل کر دیا ہے کہ ہم دوپٹے اتار کر جینز شرٹ میں خوش ہو رہے ہیں ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہم کس کس کی ہوس کی تسکین کا سبب بن رہی ہیں چند ہوس زدہ لوگوں کی چالوں میں پھنس کر ہم اپنی اہمیت ہی کھو گئے ہیں اسلام نے ہمیں خزانے کی طرح چھپ کر رہنے کا کہا مگر ہم کوڑا کرکٹ کی طرح سب کی گندی نظروں میں فخر محسوس کرتی ہیں ہم کتنی بےوقوف ہیں کہ ان کی چالوں میں پھنستی جا رہی ہیں - اس ٹیبل کے سب لوگ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے اتنی سی بچی کی اتنی اچھی اور پختہ سوچ کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا مگر اس کی ماں ابھی ہار ماننے پر تیار نہیں تھی کمزور آواز میں اپنا دفاع کرتے ہوئے بولی یہی سوچ میری ایک دوست کی بھی ہے اور اسے اس سوچ کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ تیس سال کی عمر میں بھی اچھی شکل و صورت اور پڑھی لکھی ہونے کے باوجود کنواری بیٹھی ہے سب لوگ یہی کہتے ہیں جس لڑکی کو پہننے اوڑھنے کا سلیقہ نہیں ہے وہ ہمارے سرکل میں موو کس طرح کرے گی اس جیسی ملانی لڑکی کا ساتھ شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں - رانو ان کی بات پر مسکراتے ہوئے بولی قابل فخر ہیں آپ کی دوست جنہیں عزت کی حفاظت کرنا آتی ہے اور جہاں تک شادی کی بات ہے تو کسی بےغیرت انسان سے شادی کرنے سے بہتر ہے انسان کنوارہ ہی رہے اور میں تو یہی کہوں گی کبھی اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہ کرو جو ماڈرن ازم کے نام پر آپ کی بیٹی کی عزت سر سے اتار لے جسے اس بات سے کوئ فرق نہ پڑتا ہو کہ دوسرے مرد اس کی عزت کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں یاروں دوستوں کی محفل میں اپنی بیوی کی نمائش کرکے جو شخص خوش ہو ایسے شخص سے شادی کرنے سے بہتر انسان شادی نہ ہی کرے - اس کی بات پر وہ عورت خاموش ہو گئ شاید اب کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا اپنی شرمندگی چھپانے کو وہ سامنے سٹیج پر دیکھنے لگی جہاں حجاب میں لپٹی ایک ایک سات سال کی بچی نعت پڑھ رہی تھی اس بچی کے چہرے پر چھائ معصومیت اور پاکیزگی ایک عجیب سا سحر طاری کر رہی تھی اس بچی کی خوبصورت آواز کے سحر میں جکڑی وہ عورت سر پر دوپٹہ رکھتے ہوئے متاثر کن انداز میں بولی واؤ کتنی پیاری آواز ہے بچی کی اور اس کے کپڑوں اور انداز سے معلوم ہوتا ہے کسی نیک اور شریف ماں نے اس کی پرورش کی ہے رانو نے فخریہ انداز میں وریشہ کو دیکھا اور پھر اس عورت کی طرف جھکی اور ہلکی آواز میں بولی آپ بھی بہت شریف ماں ہیں لوگوں کی تسکین کے لیے اپنی اور اپنی بیٹیوں کی حیا کو مت ماریں - وہ عورت مسکراتے ہوئے بولی اسلام کی بیٹی کی اہمیت پہچان گئ ہوں اب انشااللہ صرف اپنے خدا کو خوش کروں گی - رانو سامنے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کاش اسی طرح ہر عورت اپنی اہمیت پہچان لے تو کوئ اسے ماڈرن ازم اور آزادی کے بہلاوے میں ننگا نہیں کر سکتا کاش کہ اسلام کی شہزادیاں اپنا مقام نہ بھولتیں تو اس ہوس زدہ معاشرے میں ذلیل و رسوا نہ ہو رہی ہوتیں اگر انہیں اپنے مقام کی پہچان ہوتی تو وہ کبھی میرا جسم میری مرضی جیسے گھٹیا نعرے لگا کر خود کو رسوا نہ کرتیں بلکہ ان کا ایک ہی نعرہ ہوتا " میرا جسم میرے خدا کی مرضی " کیونکہ اسی میں اصل عزت ہے
♥ ♥ ♥
ختم شد
*********
Description
- Read this : urdu love stories
- Read this : Love stories in urdu
- Read this : Urdu romantic love story
- Read this : Urdu love story
- Read this : Urdu ghazal
- Read this : Two line poetry
- Read this : Urdu poetry
0 تبصرے