Great love story in urdu
عنوان : محبت میں تیرے قربان
مصنفہ : اقصیٰ صدیق
introduction
نوحہ ایک great Urdu love story ہے جس کی مصنفہ اقصیٰ صدیق ہیں - یقیناً آپ کو یہ کہانی پسند آئے گی اور اگر آپ مزید اس طرح کی اردو کہانیاں, افسانے اور شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو اس بلاگ پر مختلف پوسٹ میں آپ کو مزید اس طرح کے زبردست افسانے اور شاعری پڑھنے کو مل جائے گی -
***********
romantic love story |
آج دس سال بعد وہ اس گھر میں قدم رکھ رہی تھی اس نے کسی کو بھی اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی تھی – پورے گھر میں خاموشی چھائ ہوئ تھی شاید سب اپنے کمروں میں تھے ویسے بھی اتنے ٹھنڈے موسم میں باہر نکلنے کا کس کا من چاہے گا اس نے سر جھٹکا اور گھر پر طائرانہ نظر ڈالی سب ویسے ہی تھا کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا اتنے سالوں میں اس نے اپنے بچپن اسی گھر میں گزارا تھا اگرچہ پڑھائ کے لیے وہ شہر شفٹ ہوگئے تھے مگر پھر بھی اس گھر کے چپے چپے سے اس کی یادیں وابستہ تھیں بہت سے مناظر اس کی نظروں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہے تھے کبھی عادل اسے چھیڑ دیتا تو وہ گھنٹوں اس کے پیچھے بھاگتی رہتی مگر وہ کبھی اسے پکڑ نہ پاتی پھر ناکامی پر زور زور سے رونے لگتی تو عمیر عادل کو پکڑ کر لے آتا اور اس وقت تک پکڑے رہتا جب تک وہ جی بھر کر اسے مار نہ لیتی اور اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوتا – عمیر اس سے بہت پیار کرتا تھا اسے ہمیشہ سے یقین تھا جب کبھی اسے اپنے بھائ کی ضرورت پڑے گی اس کا بھائ اس کے ساتھ ہوگا مگر اس کے بھائ نے تو اسی وقت اس کا ہاتھ جھٹک دیا جب اسے سب سے زیادہ بھائ کے یقین کی ضرورت تھی – وہ سوچوں میں گم کھڑی تھی کہ اچانک رباب کچن سے نکلی اس پر نظر پڑتے ہی وہ زور سے چیخی پھپھو … – ظل سحر نے اس کی جانب دیکھا وہ کتنی بڑی ہوگئ تھی ایک لمحے کے لیے تو وہ اسے پہچان ہی نہیں پائ تھی – رباب دوڑ کر اس کے گلے لگ گئ اس کی آواز سن کر سب جمع ہوگئے – ماما جنہیں ایک عرصے سے گھنٹوں میں تکلیف تھی سب سے پہلے کمرے سے نکلی تھیں – سب سے ملنے کے بعد اس کی نظر بھائ کے کمرے کی طرف اٹھی وہ اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے سرد نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اس کے دیکھنے پر وہ مڑگئے – ظل سحر نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں پکار اٹھی بھائ …. ایک دم سے سناٹا چھا گیا سب ہی عمیر کے ری ایکشن کے منتظر تھے وہ دوبارہ مڑا مگر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ظل سحر چلتی ہوئ ان کے سامنے آ کھڑی ہوئ اور آنسو بھری نظروں سے انہیں دیکھنے لگی کیا میرے ناکردہ گناہ پر اب بھی ناراض ہیں انہوں نے ایک نظر ماں کو دیکھا جو التجا بھری نظروں سے ان کو دیکھ رہی تھیں انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ” خوش رہو ” – آپ کی ناراضگی کے باوجود وہ روتے ہوئے ان سے استفسار کر رہی تھی – عمیر نظریں چراتے ہوئے وہاں سے چلے گئے – رباب نے حیرت سے باپ کو جاتے ہوئے دیکھا دس سال بعد ان کی بہن گھر آئ تھی اور اس طرح کا استقبال مگر کیوں ؟ بہت سے سوال اس کے من میں مچل رہے تھے – کچھ لمحے سب ہی عمیر کے رویے پر خاموش کھڑے رہے پھر بڑی امی انہیں لے کر ان کے کمرے میں چلی گئیں جو آج بھی ویسا ہی تھا جیسے دس سال پہلے تھا بڑی امی روز ان کے کمرے کی صفائ کرواتی تھیں شاید انہیں یقین تھا کہ ایک دن ان کی بیٹی ضرور واپس آئے گی – ماما پھپھو کے لیے کھانا بنانے کچن میں چلی گئیں تو وہ بھی ان کے پیچھے چلی آئ ماما بابا کو پھپھو کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا وہ پانی گلاس میں ڈالتے ہوئے بولی انہوں نے فرج سے کباب نکالتے ہوئے اس کو دیکھا تم چھوٹی ہو ان معاملات سے دور رہو اور چائے بناؤ میں اتنی دیر میں کباب تل لیتی ہوں – وہ چائے کا پانی دم پر رکھ کر پھر مڑی ماما ویسے بابا پھپھو سے ناراض کیوں ہیں – ماما نے گھور کر اسے دیکھا کتنی بار کہا ہے دوسروں کی سن گن لینا چھوڑو اور پڑھائ پر فوکس کرو – وہ ایک دم بدمزہ ہوئ کیا ماما نہیں بتانا مت بتائیں پڑھائ کو تو درمیان میں مت لائیں – ماما نے کباب پلٹتے ہوئے مصروف انداز میں کہا تمہارے لیے دوسرے معاملات سے زیادہ پڑھائ اہم ہے اس لیے اسی پر فوکس کرو – اسے پتا تھا اگر اب وہ کچھ بولی تو نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ جائے گی اس لیے وہ خاموشی سے چائے بنانے لگی
♥♥♥
آج کافی دنوں بعد دھوپ نکلی تو ظل سحر اور بڑی امی چھت پر چلے گئے وہ ان کی گود میں سر رکھے ان کی رنگ سے کھیلتے ہوئے ان کے ساتھ باتیں کر رہی تھی رباب بھی کچھ دیر ان کے ساتھ باتیں کرتی رہی پھر ٹیسٹ کی تیاری کرنے نیچے چلی گئ کچھ ہی دیر بعد وہ واپس آئ تو کافی خوش لگ رہی تھی ظل سحر نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا ٹیسٹ کی تیاری ہو بھی گئ – وہ ڈھٹائ سے بولی نہیں ابھی تو شروع ہی نہیں کی پر آپ سب کے لیے ایک خبر لائ ہوں ظل سحر ہنستے ہوئے بولی ہوں اس کا مطلب ہے اپنا کام پورا کر آئ ہو – رباب نے خفگی سے انہیں دیکھا پھپھو پلیز سیریس ہو جائیں اور میرے ساتھ چلیں مجھے آپ کو اپنے دوست سے ملوانا ہے – ظل سحر کے بالوں میں چلتا بڑی امی کا ہاتھ ایک دم رکا ان کا رنگ اڑ گیا وہ ہلکی سی آواز میں بولیں کس سے ملوانا ہے – مگر اس سے پہلے ہی رباب ظل سحر کو کھینچ کر لے گئ – وہ ان کے پیچھے آئیں مگر دیر ہو گئ تھی وہ دونوں کسی مجسمے کی طرح ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے ایسا لگتا تھا جیسے دونوں بےجان گڈے گڈی ہوں انہوں نے عادل کو دیکھا وہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے یقین نہ آ رہا کہ آج برسوں بعد ایک بار پھر اس کے سامنے کھڑی ہے – انہوں نے ظل سحر کو دیکھا وہ دکھ اور نفرت بھری نظروں سے عادل کو دیکھ رہی تھی – سب سے پہلے عادل کو ہی ہوش آیا تو اس نے اسے سلام کیا مگر وہ اس کے سلام کا جواب دیے بغیر مڑ کر وہاں سے چلی – بڑی امی آگے بڑھیں اور اسے پانی لانے کے بہانے وہاں سے بھیج دیا اور خود عادل کے آگے ہاتھ جوڑ دیے پلیز بیٹا برا مت ماننا مگر تم یہاں مت آیا کرو – برسوں بعد میری بیٹی واپس آئ ہے میں اسے پھر سے کھونا نہیں چاہتی ہم سب جانتے ہیں تم بےگناہ ہو مگر مجبور ہیں – اگر تم اس کے سامنے رہو گے تو وہ پھر ہمیں چھوڑ کر چلی جائے گی ایک بار پھر اسے کھونے کا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں – عادل نے ان کے بندھے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے چچی آپ کیوں مجھے گناہ گار کر رہی ہیں میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں اب یہاں نہیں رہوں گا اور نہ ہی میری وجہ سے اب کسی کو تکلیف ہو گی – رباب پانی لے کر آئ تو بڑی امی گم صم سی صوفے پر اکیلی بیٹھی تھیں – وہ پانی ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی عادل مامو کہاں ہیں ؟ انہوں نے گلاس اس کے ہاتھوں سے تھام لیا چلا گیا وہ اتنی ہلکی آواز میں بولیں کہ رباب بمشکل سن پائ – چلے گئے کہاں ضرور اپنے پورشن میں گئے ہونگے میں ان کو یہاں بلا آتی ہوں – وہ عادل کے پورشن میں آئ تو وہ اپنا سامان سمیٹ رہا تھا ا اس نے حیرت سے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں وہ جلدی جلدی سامان پیک کرتے ہوئے بولے واپس لندن جا رہا ہوں – رباب نے حیرت سے انہیں دیکھا آپ کی چھٹیاں تو ایک ماہ کی ہیں اتنی جلدی کیوں جا رہے ہیں – وہ سامان پیک کر چکے تھے سیدھے ہو کر کمرے پر طائرانہ نظر ڈالی ضروری کام آ گیا ہے اس لیے واپس جانا پڑ رہا ہے اگلی بار لمبے عرصے کی چھٹی پر آؤں گا – وہ بسوری جانا ضروری ہے کیا وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے ہاں بہت ضروری ہے پھر جاتے جاتے پلٹے خیال رکھنا اپنا بھی اور سب گھر والوں کا بھی – رباب نے چونک کر انہیں دیکھا اور شرارت سے مسکرائ کسی خاص انسان کا خیال رکھنا ہے تو اس کا نام بھی بتا دیں کیونکہ اتنے لوگوں کا خیال میں نہیں رکھ سکتی ہاں کسی خاص انسان کا نام بتا دیں اس کا رکھ لوں گی – وہ بھی اس کی طرح مسکراہٹ دبا کر بولے سمجھ تو گئ ہو بس اب اچھے سے خیال رکھنا اس نے سعادت مندی سے سر ہلا دیا – عادل کسی سے ملے بغیر خاموشی سے چلے گئے -
♥♥♥
رباب جانتی تھی گھر میں تو کوئ اس کو کچھ بتائے گا نہیں اس لیے اس نے ڈائریکٹ عادل کو فون کر لیا – پہلے تو وہ اسے ٹالتے رہے مگر آگے بھی رباب تھی سب کچھ جاننے پر اصرار کرتی رہی آخر وہ ہار مانتے ہوئے بولے بہت لمبی داستان ہے کیا کرو گی جان کر مگر اس کا اصرار جاری رہا بےشک جتنی لمبی داستان ہو مجھے آج ہی سب جاننا ہے – وہ تھکے تھکے انداز میں بولے میں یعنی عادل ,تمھارا پاپا عمیر اور پھپھو وہ ایک لمحے کے لیے رکے اور گہری سانس بھری ظل سحر یہ نام لیتے ہوئے آج بھی ان کے دل کی حالت عجیب سی ہو جاتی تھی وہ کبھی بھی انہیں کوئ نام نہیں دے پائے تھے یا شاید دینا نہیں چاہتے تھے – ان کی طویل خاموشی سے اکتا کر رباب بولی چاچو پلیز خیالوں میں کسی اور وقت کھو جائیے گا ابھی مجھے بتائیں یہ دوستی کیسے ٹوٹی – عادل افسردگی سے بولے بچپن میں تو دوستی تھی مگر بڑے ہو کر نہ جانے کب مجھے ظل سحر سے پیار ہو گیا پہلے تو احساس ہی نہیں ہوا مگر احساس ہوتے ہی میں نے سب سے پہلے ظل سحر سے بات کی میں نے اس کو کہا میں اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں وہ فوراً مان گئ شاید وہ بھی مجھ سے پیار کرتی تھی - مگر جب میں نے رشتہ بھیجا تو عمیر نے نہ جانے کیوں منع کردیا انکل آنٹی میرے ماما بابا سب اس رشتے سے خوش تھے مگر عمیر نہ جانے کیوں اچانک بدل گیا - سب کے زور دینے پر بھی وہ ہمارے رشتے کے لیے نہیں مانا - ظل سحر نے کہا میرے بھائ نہیں مانتے اور اپنے بھائ کی چاہت سے بڑھ کر میرے لیے کچھ نہیں ہے تم اب مجھے بھول جاؤ اور کسی اور لڑکی سے شادی کر لو بہت دکھ ہوا تھا مگر زبردستی تو نہیں کر سکتا اس لیے شہر ہی چھوڑ دیا - ماما مجھے ظل سحر کے بارے میں بتاتی رہتی تھیں - بابا کی طبیعت خراب رہنے لگی تو میں واپس آ گیا - ایک گھر میں رہنے کے باوجود ظل سحر سے بہت کم سامنا ہوتا تھا - عمیر میری طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے مگر بابا کی بیماری میں وقت ہی ملا کہ میں اس سے بات کر لیتا - بابا اسی بیماری میں چل بسے اور ان کی ڈیتھ کے ایک ماہ بعد ماما کی بھی ڈیتھ ہو گئ - گھر میں میرا دم گھٹتا تھا تایا تائ میرا بہت خیال رکھتے مگر مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا تھا اور پھر ظل سحر بھی میری وجہ سے گھر میں قید ہو گئ تھی اس لیے میں نے دوبارہ امریکہ جانے کا پلان بنا لیا - میرے جانے سے ایک دن پہلے عمیر گھر آتے ہی ظل سحر کو مارنے لگا عمیر کی منگیتر عائشہ نے اسے بھڑکایا تھا کہ ظل سحر نے میرے ساتھ بھاگنے کا پروگرام بنا رکھا ہے وہ ہمیشہ سے ہی ظل سحر اور عمیر کے پیار سے جلتی تھی مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میرے خلاف بھی اسی نے عمیر کو بھڑکایا تھا شور کی آواز سن کر میں باہر نکلا تو وہ جانوروں کی طرح ظل سحر کو پیٹ رہا تھا تایا تائ اسے روک رہے تھے مگر اس پر تو جنون سوار تھا - میں نے ظل سحر کو بچانے کی کوشش کی تو وہ مجھے بھی مارنے لگا مگر مجھے ظل سحر کی فکر تھی جو بےجان مجسمے کی طرح کھڑی مار کھا رہی تھی - میں نے بہت مشکل سے ظل سحر کو اس کے روم میں بھیجا اور عمیر گھر سے نکل گیا - میں زخموں کے باوجود آدھی رات تک اس کے کمرے کا دروازہ بجاتا رہا تایا تائ نے بھی اصرار کیا مگر اس نے دروازہ نہیں کھولا - میں مایوس ہو کر آدھی رات کو نکل گیا اگلی صبح تایا ابو کی کال ظل سحر بھی گھر چھوڑ کر چلی گئ - وہ بھائ کا اعتبار جیتنا چاہتی تھی جب وہی نہیں ملا تو اس گھر میں رہنے کا فائدہ ہی کیا - بعد میں عائشہ نے سچ بتا دیا تھا کہ وہ صرف عمیر اور ظل سحر کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہتی اس کی سچائ سامنے آتے ہی عمیر نے اس سے منگنی توڑ دی اور تایا تائ کی پسند سے شادی کر لی - مگر بہن سے پھر بھی بات نہیں کی تایا تائ ہی اس سے بات کرتے تھے اور اب جب وہ سب بھلا کر آ گئ ہے تب بھی اسے بہنوں والا مان نہیں دے رہا اور ظل سحر وہ سمجھتی ہے عمیر کو میں نے اس کے خلاف بھڑکایا تھا اس لیے اب وہ بھی مجھ سے نفرت کرتی ہے - رباب پر سوچ انداز میں بولی اس کا مطلب اب آپ کے پھپھو اور پاپا کے درمیان پھر سے دوستی کروانی پڑے گی - عادل بےزاری سے بولے ان فاصلوں کو مٹانا اتنا آسان نہیں ہے تم ان چکروں میں نہ پڑو - رباب اٹھتے ہوئے بولی چاچو مجھے مشکل کام کو آسان بنانا آتا ہے - عمیر اس کے انداز پر مسکرا دیا-
♥♥♥
رباب اس وقت باپ کے سامنے بیٹھی سوال کر رہی تھی بابا کیا پھپھو کا گناہ اتنا بڑا تھا کہ آپ نے ان کو خود سے الگ ہی کر دیا - عمیر بے اختیار نظریں جھکا گیا - باپ میں آپ کی بیٹی ہوں آپ کو مجھ پر شک ہو گا تو کیا آپ مجھے بھی بغیر کسی صفائ کے سزا سنا دیں گے خود سے دور کر دیں گے اور جب کہ آپ جانتے ہیں آپ غلط ہیں تو خود کو سزا دیں نا پھپھو کو کیوں بےگناہ ہوتے ہوئے بھی ان کی نظروں میں گناہ گار بنا رہے ہیں - عریشہ نے عمیر کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر بے اختیار اسے ٹوکا رباب کتنی بار تمھیں منع کیا ہے فضول بحث مت کیا کرو مگر تمھیں سمجھ ہی نہیں آتا اب تم باپ سے سوال کرو گی - عمیر نے ہاتھ اٹھا کر اسے منع کیا اریشہ اسے مت منع کرو وہ باپ سے نہیں بلکہ ایسے شخص سے سوال کر رہی ہے جو اپنی ہی بہن کی خوشیوں کا قاتل ہے جس نے اپنے ماں باپ بہن اور بھائ کے چہرے سے مسکراہٹٹ نوچ لی ہے - یہ ایسے مجرم سے سوال کر رہی ہے جو ہر روز ضمیر کی عدالت میں ذلیل ہوتا ہے مگر اپنی انا کو نہیں چھوڑتا - رباب اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بولی بابا اب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا چاچو اور پھپھو سے معافی مانگ لیں اور ان دونوں کی شادی کر دیں دیکھنا اس گھر کی روٹھی خوشیاں واپس آ جائیں گی -
♥♥♥
عمیر دروازہ بجا کر ظل سحر کے کمرے میں گیا وہ کوئ کتاب پڑھ رہی تھی بھائ کو اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران ہو گئ - عمیر نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے اس نے تڑپ کر اس کے بندھے ہاتھ کھولے بھائ مجھے گناہ گار تو نہ کریں - عمیر روتے ہوئے بولے میں نے تم پر بہت ظلم کیا ہے مجھے معاف کر دو - ظل سحر مسکراتے ہوئے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی بھائ میں نے تو آپ کو بہت پہلے معاف کر دیا تھا بس میں انتظار میں تھی کہ آپ کب سب بھول کر اپنی بہن کو گلے لگاتے ہیں اور آج میں بہت خوش ہوں کہ خدا نے ایک بار پھر مجھے میرے اس بھائ سے ملوا دیا ہے جو برسوں پہلے کھو گیا تھا - عمیر اس کی بات بات پر مسکرا دیا مگر میں خوش ہوں کہ برسوں بعد بھی میری بہن ویسی ہی ہے معافی مانگنے سے پہلے معاف کرنے والی - پھر اس نے عائشہ کے بارے میں اسے سب بتا دیا - ان دونوں نے عادل سے بھی معافی مانگی اور عادل نے بنا کسی سوال جواب کے انہیں معاف کر دیا اس کے لیے یہی بہت تھا کہ اس کا بچپن کا دوست اور پیار اسے واپس مل گیا ہے
♥♥♥
آج ظل سحر اور عادل کی شادی تھی - سب بہت خوش تھے عمیر سب کو خوش دیکھ کر سوچ رہے تھے کاش وہ پہلے ہی اپنی انا کو مار دیتے تو اتنے برس خوشیوں کے لیے ترسنا نہ پڑتا - رباب اس کو اکیلے مسکراتے دیکھ کر بولی بابا اگر کوئ آنٹی پسند آ گئ ہے تو مجھے بتائیں آپ نے دیکھا ہے نا دو پریمیوں کو ملانے کا میرا کتنا تجربہ ہے ویسے بھی ثبوت تو آپ کے سامنے ہے ہاں مگر آپ سے فیس بھی لوں گی کیونکہ آپ کی ہٹلر بیوی سے بھی تو آپ کو بچانا ہے - عمیر ہنستے ہوئے بولے میری ہٹلر بیوی آپ کے پیچھے ہی ہے آپ اس سے ہی ڈیل کر لو میری ساری تنخواہ وہی لیتی ہے - رباب تو بنا پیچھے دیکھے بھاگ گئ اور سب دیر تک اس پر ہنستے رہے -
♥♥♥♥
........ختم شد........
- Read this : urdu love stories
- Read this : Love stories in urdu
- Read this : Urdu romantic love story
- Read this : Urdu love story
2 تبصرے
Both zabardast afsana
جواب دیںحذف کریںI am waiting for next afsana
Mashallah
جواب دیںحذف کریں