ایک حسین خواب آخری قسط
مصنفہ : اقصیٰ صدیق
اگلے دن وہ نہیں آیا - وہ سارا وقت اس کا انتظار کرتی رہی شاپ بند کر کے وہ اپنی سائیکل لے کر بیجنگ کی خالی سڑکوں پر آہستہ آہستہ چلنے لگی - ایک عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی - اچانک وہ نہ جانے کہاں سے نکل کر وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا - کل اپنا ہر راز بتا دینے کے بعد وہ شرمندگی محسوس کر رہی تھی - وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے انجان بنی سامنے سڑک پر دیکھ کر چلتی رہی -وہ بالکل نارمل انداز میں اس سے باتیں کرتا رہا - یوژلی پہلے تو روڈلی جواب دیتی رہی مگر وہ اتنے نارمل انداز میں بات کر رہا تھا کہ آہستہ آہستہ وہ بھی نارملی اس سے باتیں کرنے لگی - اس کے بعد اکثر وہ دونوں اسی طرح سڑک پر باتیں کرتے رہتے - یوژلی اپنے گھر چلی جاتی اور وہ واپس پلٹ جاتا -ایک دن وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا اس نے اسے ایک مشہور فیشن میگزین تھمایا جس کے فرنٹ پیج پر گلوکارہ لانا ڈیل رے کی تصویر تھی - اس کے اگلے صحفہ پر اس کی تصویر تھی اور چھوٹا سا آرٹیکل چھپا تھا اس نے ایک نظر تصویر کو دیکھا اور میگزین بند کر کے اپنے سائیکل کے آگے بنی ٹوکری میں رکھ دیا جس میں وہ اکثر اپنی ماں کے لیے دوائیاں اور کھانا رکھ کر لے آتی تھی - بروک کے چہرے سے خوشی غائب ہو گئ وہ بجھے بجھے انداز میں بولا کیا تمہیں خوشی نہیں ہوئی کہ تمہاری تصویر اتنے بڑے میگزین میں چھپی ہے اس نے اس کا اداس چہرہ دیکھا اور دل رکھنے کو زبردستی مسکرا کر بولی خوشی ہاں ہوئی ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے - اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے - بروک مایوسی سے بولا اس میں تمہارے بارے میں ایک آرٹیکل بھی چھپا ہے اگر وقت ملے تو ضرور پڑھنا تمہیں اچھا لگے گا - اس نے محض سر ہلا دیا - اس کا گھر آ چکا تھا وہ اس کی طرف دیکھے بنا اندر چلی گئ - بروک کچھ پل اس کے عجیب رویے پر غور کرتا رہا اور پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا -
****
چار دن ہو گئے تھے اسے میگزین ملے مگر اس نے اسے کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا - اس نے اندازہ لگا لیا کہ یقیناً اس میں یہی لکھا ہوگا کہ ایسے بچوں کو مار دینا چاہئے اگر انہیں زندہ چھوڑ دیا جائے تو وہ اس کی طرح اپنی منحوسیت سے اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کی زندگی مشکل کر دیتے ہیں - اس نے سٹور روم میں جمع اپنی ماں کی پرانی کتابوں میں اسے پھینک دیا تھا - بروک ہر روز اس سے پوچھتا کہ کیا اس نے آرٹیکل پڑھا مگر ہر بار وہ اس سے نظریں چراتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیتی - آخر ایک دن شرمندگی سے ہلکی آواز میں اس نے یہ اعتراف کر ہی لیا کہ وہ پڑھنا نہیں جانتی - اس کی آنکھوں پر ہمیشہ کی طرح آج بھی کالا چشمہ لگا ہوا تھا مگر وہ جانتی تھی کہ وہ حیرت سے اسے دیکھ رہا ہے - کچھ دیر بعد وہ بات بدلتے ہوئے نارمل انداز میں بولا یوژلی میں تمہارے زندگی کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں سوائے ایک بات کہ تمہاری زندگی کا سب سے بڑا سپنا کیا ہے - یوژلی نے اس عجیب اور بے وقت سوال پر گھور کر دیکھا مگر اس پر کوئ اثر نہ پڑتے دیکھ کر گہری سانس بھرتے ہوئے سامنے سیدھی صاف سڑک پر نظریں جماتے ہوئے کھوئے ہوئے انداز میں بولی میری زندگی کا سپنا کیا ہے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں کبھی وقت ہی نہیں ملا کہ اپنے بارے میں سوچوں - مگر اب جب تم نے پوچھا ہے تو ذہن میں دو باتیں آ رہی ہیں جو خواب ہیں یا نہیں میں نہیں جانتی مگر اگر وہ پوری ہو جائیں تو بہت خوشی ہو گی - بروک ایک اچھے سامع کی طرح اسے بہت خاموشی اور توجہ سے سن رہا تھا - وہ بھیگے لہجے میں بولی جب میں ماں کے پاس واپس آئی تو کبھی کبھار اس کی کوئی سہیلی یا کوئی رشتہ دار ماں سے ملنے آتا تو ماں مجھے اسٹور روم میں بند کر دیتی انہیں بتاتی کہ میری بیٹی پیدا ہوتے ہی مر گئی تھی - اسے میرے وجود سے شرمندگی محسوس ہوتی تھی میری زندگی کا سپنا ہے کہ ماں مجھے گلے لگا کر پوری دنیا کے سامنے یہ اعتراف کرے کہ میں اس کی بیٹی ہوں - درد بھرے ماضی کی کرچیوں کی چبھن سے اس کی آنکھوں میں پانی بھر گیا - بروک کو اس کا ماضی قابل رحم لگا مگر وہ اس کا ماضی نہیں بدل سکتا تھا اس لیے بات بدلتے ہوئے بولا اور دوسرا سپنا وہ بھی تو بتاؤ نا - یوژلی بھیگی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے بولی نہیں وہ نہیں بتاؤں گی وہ تو شاید میں خود سے بھی چھپانا چاہتی ہوں تمہیں کیسے بتا دوں ؟ بروک نے آبرو اچکا کر اس کی طرف دیکھا اوہ اچھا تو یہ بات ہے ٹھیک ہے مت بتاؤ ہم خود پتا لگا لیں گے - یوژلی اس کے اعتماد پر محض مسکرا دی -
****
یوژلی معمول کے مطابق اپنے کام میں مصروف تھی کہ اچانک شاپ کے باہر کچھ لوگ جمع ہوگئے - ان میں میڈیا کے لوگ بھی شامل تھے سب لوگ کھانا چھوڑ کر باہر نکل گئے - ہیری کے ساتھ وہ بھی باہر نکل آئی ہر کوئ ایک دوسرے سے سوال کر رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے مگر جواب کسی کے پاس نہیں تھا - اچانک دور سے بروک کی گاڑی آتی دیکھائی میڈیا والوں نے اپنے کیمروں کا رخ اس کی گاڑی کی جانب کر دیا - سب لوگ اسی طرف متوجہ ہو گئے دوسروں کی طرح وہ بھی بروک کی گاڑی کو متجسس نظروں سے دیکھ رہی تھی - مگر گاڑی میں سے بروک کی بجائے اپنی ماں کو نکلتے دیکھ کر وہ ششدر رہ گئ - اس کی ماں جو برسوں سے بیماری کی وجہ سے صحیح سے چل بھی نہیں سکتی تھی پورے مجمعے کو چیرتے ہوئے تیزی اس کی طرف بڑھ رہی تھی - وہ حیران و پریشان ماں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ رہی تھی اس کی ماں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا - وہ روتے ہوئے کبھی اس کے سفید دھبوں والے چہرے کو تو کبھی اس کے بےتحاشہ سفید بالوں کو چومنے لگتی وہ اس کے ساتھ کی گئ ہر زیادتی کی معافی مانگ رہی تھی - یوژلی اس اچانک کایا پلٹنے پر سن سی کھڑی تھی - اس کی ماں نے بتایا خوش قسمتی ایک ہفتہ پہلے ہی ان کے گھر میں داخل ہو گئ تھی مگر وہ اس کی لاپرواہی کی وجہ سے انجان رہی اس نے بتایا کہ وہ میگزین جو اس نے ردی میں پھینک دیا تھا اس میں اس کی تصویر چھپنے کے معاوضے کے طور ایک کروڑ کا چیک موجود تھا جوکہ بروک نے اسے دیا تھا - یوژلی کی الجھن ایک دم ختم ہو گئ وہ گہری سانس کھینچتے ہوئے ماں سے الگ ہو گئ - وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے خوشی ہوئ ہے یا نہیں ہاں مگر وہ بروک کی ضرور احسان مند تھی جس نے اتنی خوبصورتی سے اس کی ایک خواہش پوری کی تھی - اس نے متلاشی نظروں سے اس کی گاڑی کی طرف دیکھا وہ ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹٹ سجائے یوژلی پر نگاہیں جمائے باہر نکلا -اسے دیکھ کر یوژلی کو ایک اور حیرت کا جھٹکا لگا - آج نہ اس نے چشمہ لگایا ہوا تھا اور نہ ٹوپی پہنی ہوئ تھی اس کے ماتھے اور آنکھوں کے نیچے سفید دھبے اور بےتحاشہ سفید بالوں کو دیکھ کر پورے مجمعے پر سکوت طاری ہو گیا - ہر شخص حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا جسے آج تک اچھا شگن سمجھا گیا تھا - میڈیا کے لیے یہ ایک بہت بڑی بریکنگ نیوز تھی - وہ دھڑا دھڑ اس کی تصویریں کھینچ رہے تھے - وہ ان کو ہٹاتے ہوئے یوژلی کی طرف بڑھا اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ڈائمنڈ کی رنگ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے مسکرا کر پوچھا ویل یو میری می - وہ منہ پر ہاتھ رکھے بےیقینی سے اسے دیکھے گئ آج کا دن خوابوں کی تکمیل کا دن تھا - پورا مجمع تالیاں بجا کر ان کی خوشی سیلیبریٹ کر رہا تھا - اس نے بروک کے ہی انداز میں اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھا دیا - وہاں موجود سب لوگ خوشی سے تالیاں بجانے لگے - بروک نے مسکراتے ہوئے اسے انگوٹھی پہنائی وہ خوش تھی بےتحاشہ خوش - اس نے خوشی سے مسکراتے ہوئے بروک کو دیکھا شکریہ بروک میرے ہر خواب کو اتنے خوبصورت انداز میں پورا کرنے کے لیے - بروک مسکرایا اور اس کی ہاتھ کی پشت پر بوسہ دے کر اسے خود سے لگا لیا - وہ خوش تھا بے تحاشہ خوش - اس نے قسمت سے زیادہ محنت پر بھروسہ کیا اور اپنی محنت سے وہ سب پا لیا جو اسے چاہئے تھا - یوژلی نے چاروں طرف دیکھا ان دونوں کے اردگرد لوگوں کا ایک ہجوم تھا - آج اسے لوگوں سے ڈر نہیں لگ رہا تھا کیونکہ آج ان کی آنکھوں میں اس کے لیے حقارت نہیں بلکہ رشک تھا - بروک کے سفید دھبے والے چہرے کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی یقیناً اس زمین پر مجھ سے زیادہ کوئی خوش نصیب نہیں ہے -
......ختم شد
Ek haseen khawab last episode written by Aqsa Siddique
0 تبصرے